عرب کے کسی شیخ کے پاس عمدہ نسل کا ایک برق
رفتار گھوڑا تھا۔ لوگ اُسے منہ مانگی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار تھے مگر شیخ نے اُن کے اشتیاق اور
اصرار کے باوجود اُسے فروخت نہیں کیا۔ گھوڑے کی شہرت سن کر ایک روز
عرب کا ایک نامی گرامی شہسوار شیخ کے پاس پہنچا اور اُس نے
ایک خطیر رقم کے عوض گھوڑا خریدنے کی پیش کش کی اور کہا۔
’’ایسے اچھے گھوڑے کا مستحق مجھ جیسا شہسوار ہی ہوسکتا ہے۔
’’ایسے اچھے گھوڑے کا مستحق مجھ جیسا شہسوار ہی ہوسکتا ہے۔
‘‘ شیخ نے زیرِ لب مسکرا کے کہا۔ ’’بجا ہے۔ میں تمہاری شہسواری کا
معترف ہوں لیکن یہ گھوڑا مجھے بے حد عزیز ہے۔ اس لیے اسے میں کسی
قیمت پر نہیں بیچ سکتا۔‘‘ شیخ نے یہ بات ایسے فیصلہ کن انداز میں کہی
تھی کہ شہسوار کی آنکھوں سے مایوسی جھلکنے لگی مگر دوسرے ہی
لمحے اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’اچھا شیخ میں چلتا ہوں مگر ایک بات
یاد رکھنا۔ مجھے جو چیز پسند آجاتی ہے، میں اسے حاصل کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔
‘‘ کچھ دنوں بعد شیخ یہ واقعہ بھول گیا ایک روز وہ اپنے گھوڑے پر سوار کسی
جنگل میں جارہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک کم زور اور بیمار آدمی کو دیکھا
جو منزل تک پہنچنے کے لیے سواری کا محتاج معلوم ہوتا تھا۔ شیخ کو اس پر ترس
آگیا۔ اس نے خود اتر کے اس بیمار شخص کو گھوڑے پر بٹھا دیا۔ وہ شخص گھوڑے
پر بیٹھتے ہی تن درست اور توانا نظر آنے لگا۔ شیخ نے حیرت سے اُسے دیکھا اور
ایک دم چونک گیا کیوں کہ یہ وہی شہسوار تھا جو اس کا گھوڑا خریدنا چاہتا تھا۔
شہسوار نے زہر خند کے ساتھ شیخ سے کہا۔ ’’شیخ گھوڑے کی باگ اب میرے ہاتھ
میں ہے۔ انگلی کی ایک جنبش کے ساتھ یہ ہوا سے باتیں کرنے لگے گا اور تم منہ
دیکھتے رہ جائو گے۔ پھر منزل تک پہنچنے کے لیے تمہیں کسی اور کی مدد درکار ہوگی۔
‘‘ یہ کہہ کے شہسوار روانہ ہونے ہی والا تھا کہ شیخ نے کہا۔ ’’ذراٹھیرو! ایک بات
‘‘ یہ کہہ کے شہسوار روانہ ہونے ہی والا تھا کہ شیخ نے کہا۔ ’’ذراٹھیرو! ایک بات
سنتے جائو! میری التجا ہے کہ اگر لوگ تم سے اس گھوڑے کے حصول کی بابت
دریافت کریں تو ان سے کہنا کہ شیخ نے یہ مجھے تحفتاً دیا ہے کیوں کہ اگر تم نے
یہ کہا کہ میں نے شیخ کو بیوقوف بنا کر یہ گھوڑا حاصل کیا ہے تو لوگ ضرورت
مندوں پر بھروسا کرنا چھوڑ دیں گے اور کوئی کسی کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا‘